دو الگ الگ دنیا کے لیے دو الگ الگ خدا ہونے میں کیا قباحت ہے؟

سوال

کتاب توحید میں برہان تمانع کے بارے میں مطالعہ کررہا تھا اور اس دلیل کے بارے میں شکوک کے جواب میں مجھے ایک شبہ پیدا ہوا، جس کا جواب حاصل کرنے کے لیے مجھے مشورہ دیا گیا کہ فلسفہ اور کتاب اسفار کی طرف مراجعہ کروں جب کہ میں فلسفہ وغیرہ سے بیزار ہوں اور مجھے پسند نہیں اس لیے میں اس طرف جاؤں گا بھی نہیں اس لیے یہ سوال میں آپ سے دریافت کررہا ہوں، آپ کا جواب ان شاء اللہ قانع کنندہ ہوگا۔جب ہم خدا اور زمین کی تخلیقات اور ان حیوانات اور منظومۂ آسمانی اور خود اپنی تخلیق پر ایک سائنسی نظر ڈالتے ہیں اور اس پر غور کرتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ دنیا کے لیے دو مدبّروں کا ہونا ممکن نہیں ہے، لیکن وہ شک و شبہہ جو بیان کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ مان لینا کہ اور فرضیہ قرار دینا کہ دوسرا خدا ہے؛ یعنی یہ دنیا جس میں ہم ہیں تمام سیاروں اور زمین کے ساتھ ایک خدا نے پیدا کیا ہے اور ان کے درمیان تعلق بھی جدید سائنس نے بیان کردیا ہے لیکن اس دنیا کے علاوہ ایک اور دنیا بھی ہے جس کا کوئی اور خدا بھی ہے جس کے دست قدرت میں اس دوسری دنیا کی منصوبہ بندی، حکمت، اور تدبیر ہے۔ ہم جو خود اس دنیا سے کماحقہ واقف نہیں ہیں کہ یہ کہاں ہے عرش پر ہے یا کہیں اور… ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ کوئی دوسری دنیا نہیں ہے اور اس مفروضے کو باطل کردیں؟ اس شبہ کا جواب مختلف پہلوؤں سے دیں، جیسے کہ عقلی اور نقلی جہت سے اسباب اور اس کو خدا کی صفات سے پرکھیں، تاکہ برہان تمانع مکمل ہوسکے۔

جواب

آیت اللہ سید علی حسینی میلانی مدظلہ

باسمہ تعالیٰ

السلام علیکم

للہ تعالی کے علاوہ کسی اور مخلوق کو فرض کرنا محال ہے، کیونکہ اس سے اللہ تعالیٰ کا جہل یا اس کی عاجزی یا پھر بخل لازم آئے گا اور خدا ان سارے عیوب سے پاک و منزّہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے