امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کا ظہور کے بعد خون کی ندیاں بہانا کیا حقیقت رکھتا ہے؟

سوال:

سلام علیکم

ایک جلسے میں جس میں اعلیٰ سطح کے اساتیذ و پروفیسرز اور حوزۂ علمیہ قم کے درس خارج کے علماء و اساتیذ موجود تھے، ایک محترم استاد نے امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور سے متعلق ایک مسئلہ اٹھایا؟ اور وہ مسئلہ حسب ذیل تھا:

شبہ ہے کہ حضرت مہدی کے قیام میں بڑے پیمانے پر قتل وغارت گری ہوگی حتیٰ کہ خون حضرت مہدی کے رکاب قدم تک آجائے گا اور ننانوے فیصد لوگ اس قیام میں مارے جائیں گے۔ حضرت مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) داعش کے آج کے چہرے اور دیگر دہشتگرد تنظیموں کے قتل و غارتگری کو حضرت کے قیام سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ جب کہ اس اہم شبہ کے سلسلے میں یہ جان لینا چاہیے کہ حضرت مہدی(عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) رسول خدا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ کے دین کے احیاء کرنے والے ہیں اور حضرت کی سیرت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی سیرت ہے۔ “وَمَآ أَرۡسَلۡنَٰكَ إِلَّا رَحۡمَةٗ لِّلۡعَٰلَمِينَ” پیغمبرِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ نے اسلام کا پیغام پہنچانے میں کبھی تشدد سے کام نہیں لیا اور حتیٰ کہ پیغمبر کی تمام جنگیں دفاعی تھیں حتی کہ دفاعی جنگوں میں بھی تاریخ میں کہیں درج نہیں کہ کسی شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے قتل کیا ہو؛ امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی سیرت ہے۔ امام باقر علیہ السلام سے دریافت کیا گیا کہ امام زمانہ کی سیرت و کردار کے بارے میں ارشاد فرمائیں؟آپ نے فرمایا: “بِسِيرَةٍ مَا سَارَ بِهِ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ حَتَّى يُظْهِرَ اَلْإِسْلاَمَ”حضرت کے قیام میں قتل عام نہیں ہوگا، یہاں تک کہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کسی ایک فرد کی بھی جان نہیں جائے گی اور کوئی ایک شخص بھی ہلاک نہیں ہوگا بالکل ویسے ہی کہ جیسے فتح مکہ میں بھی ایسا ہی ہوا تھا؛ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ اپنے سخت ترین دشمنوں سے برسرپیکار تھے لیکن فتح مکہ میں آپ نے ایک ایسی حکمت عملی اپنائی کہ جس کے نتیجے میں فتح حاصل ہوئی اور مکہ بغیر خون خرابے کے فتح ہوگیا۔ ایسا ہی نظارہ  امام زمانہ کے قیام میں بھی دیکھنے کو ملے گا؛ یہ نکتہ متعدد احادیث میں مذکور ہے۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: “إِنَّ اَلْقَائِمَ مِنَّا مَنْصُورٌ بِالرُّعْبِ مُؤَيَّدٌ بِالنَّصْرِ” (إثبات الهداة بالنصوص و المعجزات , جلد۵ , صفحه۱۹۷) مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کو ہتھیار اٹھانے کی ضرورت نہیں اور لوگوں کو ان سے کوئی پریشانی نہیں ہے؛ مسئلہ متکبر لیڈروں کا ہے۔ اور وہ بھی امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی قدرت و طاقت سے مرعوب اور خوفزدہ نظر آئیں گے اور کسی بھی طرح کی کوئی غلطی کرنے سے ڈریں گے اسی لیے کسی بھی طرح کی کوئی خونریزی ہوتی نظر نہیں آئے گی۔ مرحوم ابن طاووس روایت کرتے ہیں کہ “يبايع المهدي بين الركن والمقام ولا يوقظ نائماً ولا يهريق دماً” امام رکن و مقام کے درمیان ظہور فرمائیں گے، اور امام کے قیام کے دوران سوئے ہوئے شخص کو بھی نہیں جگایا جائے گا۔ امام باقر علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ مہدی کے قیام میں خونریزی ہو؟ جس کے جواب میں آپ نے فرمایا:”لو قام لاستقامت له الاُمور عفْواً، ولا يهريق محجمة دمٍ” جتنا خون ایک حجامت کروانے میں بہتا ہے اتنا بھی خون آپ کے قیام میں نہیں بہے گا۔

جنابعالی کی رائے میں جو چیز بیان کی گئی ہے وہ شیعہ عقیدہ کے مطابق ہے یا نہیں؟

جواب

آیت اللہ سید علی حسینی میلانی مدظلہ

باسمہ تعالیٰ

السلام علیکم

یہ بات کہ “ننانوے فیصد لوگ حضرت (عجّل الله فرجه) کے قیام میں مارے جائیں گے” قطعاً درست نہیں۔ اور “اس قیام میں ایک بھی شخص نہیں مارا جائے گا” اس پر کیا دلیل ہے؟

۱۔”بِسِيرَةٍ مَا سَارَ بِهِ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ حَتَّى يُظْهِرَ اَلْإِسْلاَمَ”(إثبات الهداة بالنصوص و المعجزات , جلد۵ , صفحه۶۷) مدعیٰ کو ثابت نہیں کرتا بلکہ اس سے اس کے برعکس مطلب ثابت ہوتا ہے؛ کیونکہ حضرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ نے حکم الٰہی سے کفار سے جنگ کی تھی، اور اس بات پر قرآن مجید کی بہت سی آیات شاہد ہیں۔ اور فتح مکہ کے وقت کئی لوگوں کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا۔ اور یہ کہ: “تاریخ میں درج نہیں ہے…” حقیقت کے خلاف ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (ابی بن خلف) اور (مسجہ بن عوف) کو اپنے ہاتھوں سے قتل کیا۔

۲۔”يبايع المهدي…” کوئی حدیث نہیں ہے بلکہ ابوہریرہ کے الفاظ ہیں جسے سید ابن طاوؤس نے اہل خلاف کی کتاب (الفتن) سے نقل کیا ہے!!

(“قال حدثنا نعيم حدثنا أبو يوسف عن قطري بن خليفة عن الحسن بن عبد الرحمان العلكي عن أبي هريرة قال: يبايع المهدي بين الركن و المقام لا يوقظ نائما و لا يهريق دما.” الملاحم و الفتن في ظهور الغائب المنتظر(عج) نویسنده : السيد بن طاووس جلد : 1 صفحه : 63)۔

۳۔ یہ کہ امام باقر علیہ السلام کی طرف منسوب ہے کہ آپ نے فرمایا “لو قام، لاستقامت له الأمور …” کافی عجیب بات ہے!! یہ روایت کتاب الغیبة شیخ نعمانی میں بشیر النّبال سے منقول ہے: عن بشیر النّبال قال: قلت لأبي جعفر: إنهم يقولون إنّ المهدي… فقال عليه السّلام: كلّا والذي نفسي بيده لو استقامت لأحدٍ عفواً لاستقامت لرسول الله…»

اوّلاً: اس کی سند غیر معتبر ہے۔
ثانیاً: جملہ: إنّ المهدي… راوی کے الفاظ ہیں دوسروں کے بیانات سے، امامؑ کا کلام نہیں ہے۔
ثالثاً: امام علیہ السلام نے اس بیان کو رد کردیا اور فرمایا: کلّا… لہٰذا اس سے دعویٰ کرنے والے کی مراد کے برعکس مراد ہے، حدیث کی تقطیع اور غیر جائز نسبت کیوں دی گئی؟

اس معاملے کی حقیقت کا خلاصہ دو فقروں میں عرض ہے:
ایک: یہ کہ امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کچھ ان چیزوں کے ذریعے غالب ہوں گے جیسے: آسمانی کتابوں سے دلائل پیش کرنا، عیسیٰ علیہ السلام کا آپ کے پیچھے نماز پڑھنا، مواعظ، معجزات،آپ کا منصور بالرّعب ہونا وغیرہ، اور بہت زیادہ خونریزی آپ کی حکومت میں نہیں ہوگی۔ لیکن کچھ لوگوں کی غلط کارکردگی کی بنا پر انھیں سرکوب کیا جائے گا جیسا کہ دعاوؤں اور زیارات کے جملوں میں موجود ہے۔

دو: یہ کہ صادقۂ طاہرہ اور امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے آباء و اجدا مظلوم شہید ہوئے اور آپ ولئ دَم ہیں اور معافی پر کوئی دلیل بھی نہیں ہے یہ بالکل واضح ہے، اور اللہ نے فرمایا ہے:”وَلَا تَقۡتُلُواْ ٱلنَّفۡسَ ٱلَّتِي حَرَّمَ ٱللَّهُ إِلَّا بِٱلۡحَقِّۗ وَمَن قُتِلَ مَظۡلُومٗا فَقَدۡ جَعَلۡنَا لِوَلِيِّهِۦ سُلۡطَٰنٗا فَلَا يُسۡرِف فِّي ٱلۡقَتۡلِۖ إِنَّهُۥ كَانَ مَنصُورٗا”/اور جس جان کا مارنا اللہ نے حرام قرار دیا ہے اس کو قتل نہ کرو۔ مگر حق کے ساتھ اور جو شخص ناحق قتل کیا جائے تو ہم نے اس کے وارث کو (قصاص کا) اختیار دے دیا ہے پس چاہیئے کہ وہ قتل میں حد سے آگے نہ بڑھے ضرور اس کی مدد کی جائے گی۔(سورة الإسراء 33)

یہ حقیقت ناقابل تردید ہے۔ اس لیے نہ ہی افراط سے کام لیں اور نہ ہی تفریط سے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے